EN हिंदी
وہ سر شام گئے ہجر کی ہے رات شروع | شیح شیری
wo sar-e-sham gae hijr ki hai raat shurua

غزل

وہ سر شام گئے ہجر کی ہے رات شروع

تنویر دہلوی

;

وہ سر شام گئے ہجر کی ہے رات شروع
اشک جاری ہیں ہوا موسم برسات شروع

جذبۂ دل نے مرے کچھ تو کری ہے تاثیر
پھر ہوئے ان کے جو الطاف و عنایات شروع

مجھ کو دکھلاؤ نہ تم رنگ حنا اس کو جلاؤ
بھیجنی جس نے کری تم کو یہ سوغات شروع

کبھو وحشت کبھو شدت کبھو غم کی کثرت
کہ جو پہلے تھے ہوئے پھر وہ ہی حالات شروع

لوگ نظروں پہ چڑھاتے ہیں خدا خیر کرے
پھر نئے سر سے ہے کی اس نے ملاقات شروع

ہجر کی شب یہ قیامت ہے کٹی اے تنویرؔ
صبح ہو جائے کرو ایسی کوئی بات شروع