وہ صفائی کبھی جو ہم سے ملاقات میں تھی
صاف کل ساختگی اس کی ہر اک بات میں تھی
جو بھلی آ کے کہی سحر ہے سمجھا نہ اسے
کل بری جو کہی داخل وہ کرامات میں تھی
ہے دل غیر کو اس ناوک مژگاں سے اب انس
جو کہ نت اپنے جگر دوزیوں کے گھات میں تھی
سنتے ہیں غیر سے وہ بات بآواز بلند
کیا قیامت ہے کہ جو ہم سے اشارات میں تھی
کیا غضب ہے وہی آئینہ پن اب لاکھ سے ہے
جو صفائی کبھی ہم سے کسی اوقات میں تھی
کوئی حاجت نہیں اب غیر کی جو ہو نہ روا
یہ تو آگے نہ مرے قبلۂ حاجات میں تھی
اتنا جویائے ملاقات نہ ہوتا تھا لطفؔ
شکل نبھنے کی جو کچھ تھی سو مساوات میں تھی
غزل
وہ صفائی کبھی جو ہم سے ملاقات میں تھی
مرزا علی لطف