EN हिंदी
وہ سامنے بھی نہیں پھر بھی ان کا شک کیوں ہے | شیح شیری
wo samne bhi nahin phir bhi un ka shak kyun hai

غزل

وہ سامنے بھی نہیں پھر بھی ان کا شک کیوں ہے

مطرب نظامی

;

وہ سامنے بھی نہیں پھر بھی ان کا شک کیوں ہے
کھلا نہیں ہے اگر پھول تو مہک کیوں ہے

یہ جوئے شیر کہیں جوئے خوں نہ بن جائے
کہ عزم تیشہ و فرہاد میں چمک کیوں ہے

اسی کو کیا میں محبت کی زندگی کہہ دوں
یہ سلسلہ تری یادوں کا آج تک کیوں ہے

ہماری آنکھوں کا ساون بھی یہ سمجھ نہ سکا
جزیرے خشک ہیں بھیگی ہوئی پلک کیوں ہے

تمہارے خط میں محبت کے رنگ بکھرے ہیں
جو یہ غلط ہے تو لفظوں میں پھر دھنک کیوں ہے

مرے لہو میں گلابوں کا رنگ ہے مطربؔ
میں کیا بتاؤں کہ اس شہد میں نمک کیوں ہے