وہ رنگ رخ وہ آتش خوں کون لے گیا
اے دل ترا وہ رقص جنوں کون لے گیا
زنجیر آنسوؤں کی کہاں ٹوٹ کر گری
وہ انتہائے غم کا سکوں کون لے گیا
درد نہاں کے چھین لیے کس نے آئینے
نوک مژہ سے قطرۂ خوں کون لے گیا
جو مجھ سے بولتی تھیں وہ راتیں کہاں گئیں
جو جاگتا تھا سوز دروں کون لے گیا
کس موڑ پر بچھڑ گئے خوابوں کے قافلے
وہ منزل طرب کا فسوں کون لے گیا
جو شمع اتنی رات جلی کیوں وہ بجھ گئی
جو شوق ہو چلا تھا فزوں کون لے گیا
غزل
وہ رنگ رخ وہ آتش خوں کون لے گیا
خلیلؔ الرحمن اعظمی