EN हिंदी
وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو | شیح شیری
wo qafila aaram-talab ho bhi to kya ho

غزل

وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو

حفیظ جالندھری

;

وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو
آواز نفس ہی جسے آواز درا ہو

خاموش ہو کیوں درد محبت کے گواہو
دعوے کو نباہو مرے نالو مری آہو

ہر روز جو سمجھانے چلے آتے ہو ناصح
میں پوچھتا ہوں تم مجھے سمجھے ہوئے کیا ہو

اس دار بقا میں مری صورت کوئی دیکھے
اک دم کا بھروسا ہے جو اک دم میں فنا ہو

مجھ کو نہ سنا خضر و سکندر کے فسانے
میرے لیے یکساں ہے فنا ہو کہ بقا ہو