وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو
آواز نفس ہی جسے آواز درا ہو
خاموش ہو کیوں درد محبت کے گواہو
دعوے کو نباہو مرے نالو مری آہو
ہر روز جو سمجھانے چلے آتے ہو ناصح
میں پوچھتا ہوں تم مجھے سمجھے ہوئے کیا ہو
اس دار بقا میں مری صورت کوئی دیکھے
اک دم کا بھروسا ہے جو اک دم میں فنا ہو
مجھ کو نہ سنا خضر و سکندر کے فسانے
میرے لیے یکساں ہے فنا ہو کہ بقا ہو
غزل
وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو
حفیظ جالندھری