وہ نقش پا ہیں کوئی دوسرا چلے تو گرے
ترے قدم پہ ترا آشنا چلے تو گرے
مجھے ہے علم تخیل کی تیز گامی کا
ترے خیال میں بیٹھا ہوا چلے تو گرے
نہ سوچی بات جو تو نے وہ لکھ نہ جاؤں کہیں
قلم یہ تیرے لیے سوچتا چلے تو گرے
قبول کر لیا قبروں نے ساری لاشوں کو
یہاں نگاہ کوئی اب اٹھا چلے تو گرے
یہ بے خودی میں سنبھلنا تو سہل ہے اخترؔ
ہماری راہ کوئی پارسا چلے تو گرے
غزل
وہ نقش پا ہیں کوئی دوسرا چلے تو گرے
اقبال اشہر قریشی