EN हिंदी
وہ نہ پہچانے یہ خدشہ سا لگتا رہتا ہے | شیح شیری
wo na pahchane ye KHadsha sa lagta rahta hai

غزل

وہ نہ پہچانے یہ خدشہ سا لگتا رہتا ہے

پرتو روہیلہ

;

وہ نہ پہچانے یہ خدشہ سا لگتا رہتا ہے
رخ پہ اس کے نیا چہرہ سا لگا رہتا ہے

اپنے گھر میں بھی تو ہے چین سے سونا مشکل
چھت نہ گر جائے یہ کھٹکا سا لگا رہتا ہے

وہ زمیں خاک اگائے گی عداوت کے سوا
پیار پر جس جگہ پہرہ سا لگا رہتا ہے

بھیڑ چھٹتی نہیں اس کلبۂ احزاں سے کبھی
آرزوئیں ہیں کہ میلہ سا لگا رہتا ہے

صاف کتنا ہی کریں دامن قاتل کو حلیف
لوح تاریخ پہ دھبا سا لگا رہتا ہے

تیرے آنے کی خوشی بھی نہیں ہوتی پرتوؔ
تو چلا جائے گا دھڑکا سا لگا رہتا ہے