وہ میرے ذہن پہ اتنا سوار ہو گیا تھا
میں کم سنی میں جنوں کا شکار ہو گیا تھا
کرے گا کون تری وسعتوں کا اندازہ
جو ہم کنار ہوا بے کنار ہو گیا تھا
تمام عمر پھر اپنی تلاش میں گزری
میں اپنے آپ سے اک دن فرار ہو گیا تھا
مجھے گنوا کے لیا دل نے سوجھ بوجھ سے کام
فضول خرچ کفایت شعار ہو گیا تھا
بھٹک رہا تھا کوئی سرپھری ہواؤں میں
پھر اس کے بعد سپرد غبار ہو گیا تھا
ملی تھی ماں کی غلامی سے یہ سرافرازی
کہ بادشاہوں میں میرا شمار ہو گیا تھا
مجھے بھی اچھے برے کی شناخت ہو گئی تھی
نسیمؔ جن دنوں بے روزگار ہو گیا تھا

غزل
وہ میرے ذہن پہ اتنا سوار ہو گیا تھا
نسیم عباسی