وہ میرے حال دل سے اس قدر بھی بے خبر ہوگا
خبر کیا تھی کہ یوں بے حس وہ میرا ہم سفر ہوگا
کہ ہم تو عمر بھر لڑنے کی خواہش لے کے آئے تھے
خبر کیا تھی کہ وقت فیصلہ یوں مختصر ہوگا
چراغ غم جلایا تھا اجالوں کی امیدوں میں
خبر کیا تھی مری کوشش کا الٹا ہی اثر ہوگا
دبے شعلوں کو بھڑکایا کہ ان کا آشیاں سلگے
خبر کیا تھی جلے گا جو مرا اپنا ہی گھر ہوگا
وہ جب رخصت ہوا اس کو پکارا بھی نہیں ہم نے
خبر کیا تھی کی پچھتاوا ہمیں پھر عمر بھر ہوگا
جہاں میری ہر اک حسرت حقیقت میں بدل جائے
خبر کیا تھی مرے خوابوں کا وہ ساحل کدھر ہوگا
جسے ہم ڈھونڈھتے پھرتے تھے خوابوں میں خیالوں میں
خبر کیا تھی وہ صدیوں سے ہمارا منتظر ہوگا

غزل
وہ میرے حال دل سے اس قدر بھی بے خبر ہوگا
سندیپ کول نادم