وہ مے پرست ہوں بدلی نہ جب نظر آئی
سمٹ گئیں جو سیہ کاریاں گھٹا چھائی
سفید بال ہوئے شب ہوئی جوانی کی
دمیدہ صبح ہوئی چونک سر پہ دھوپ آئی
حرم میں خاک ہوا ہوں وہ عاشق برباد
میان دیر ہواے بتاں اڑا لائی
میں وہ ہوں بلبل باغ جہاں کوئی گل ہو
دیا دل اس کو محبت کی جس میں بو پائی
چمن میں جا کے جو پوچھا بہار گل کا ثبات
کھلی نہ تھی جو کلی مسکرا کے مرجھائی
حصار حسن کے ہالے میں منہ نظر آیا
ملا کے ہاتھ جو لی اس حسیں نے انگڑائی
میں وہ کسان ہوں کھیتی پہ برق نے جس کی
دعا جو مینہ کے لیے کی تو آگ برسائی
رہے مدام یوں ہی عشق میں تہ و بالا
جو غم سے بیٹھ گیا دل تو اٹھنے آنکھ آئی
غزل
وہ مے پرست ہوں بدلی نہ جب نظر آئی
شاد لکھنوی