وہ لے کے حوصلۂ عزم بے پناہ چلے
جو لوگ ہنستے ہوئے سوئے قتل گاہ چلے
غریب نکلے رجز خواں تو اہل دل نے کہا
کرو سلام کہ ہمت کے بادشاہ چلے
فریب کھائے ہوئے ظلم و جور انساں کے
خدا کی خاص عدالت کے دادخواہ چلے
نہ بیم مرگ نہ خوف اجل نہ رنج کوئی
خوشی سے کرتے ہوئے رقص کج کلاہ چلے
صلیب و دار کی سب رحمتوں کے پیش نظر
وہ تبرک کرتے ہوئے حرص عز و جاہ چلے
زمانہ چیخ اٹھا سب کی آنکھ بھر آئی
برائے قتل جو مقتل کو بے گناہ چلے
زمین والو اٹھو اٹھ کے ان کو سجدہ کرو
وہ لے کے پرچم نو عرشؔ پائے گاہ چلے
غزل
وہ لے کے حوصلۂ عزم بے پناہ چلے
عرش ملسیانی