EN हिंदी
وہ جو بھی بخشیں وہ انعام لے لیا جائے | شیح شیری
wo jo bhi baKHshen wo inam le liya jae

غزل

وہ جو بھی بخشیں وہ انعام لے لیا جائے

رمز آفاقی

;

وہ جو بھی بخشیں وہ انعام لے لیا جائے
ملال ہی دل ناکام لے لیا جائے

بڑا مزہ ہمیں اس بندگی میں حاصل ہو
جو صبح و شام ترا نام لے لیا جائے

رہے نہ طائر سدرہ بھی اپنی زد سے دور
اسے بھی آؤ تہ دام لے لیا جائے

ہماری جان سے غم نے لیے ہزاروں کام
ہماری خاک سے بھی کام لے لیا جائے

مروتوں سے عداوت بدل تو سکتی ہے
اگر خلوص سے کچھ کام لے لیا جائے

یہ چشم مست تری ساقئ حیات افروز
یہ تجھ سے کیوں نہ ترا جام لے لیا جائے

بڑا کمال ہم اس بات میں سمجھتے ہیں
بخیل لوگوں سے انعام لے لیا جائے

سزا سے پہلے یہ حاکم کو چاہیے اے رمزؔ
بیان مورد الزام لے لیا جائے