EN हिंदी
وہ جس کے نام میں لذت بہت ہے | شیح شیری
wo jis ke nam mein lazzat bahut hai

غزل

وہ جس کے نام میں لذت بہت ہے

انجم بارہ بنکوی

;

وہ جس کے نام میں لذت بہت ہے
اسی کے ذکر سے برکت بہت ہے

ذرا محفوظ رستوں سے گزرنا
تمہاری شہر میں شہرت بہت ہے

ابھی سورج نے لب کھولے نہیں ہیں
ابھی سے دھوپ میں شدت بہت ہے

مجھے سونے کی قیمت مت بتاؤ
میں مٹی ہوں مری عظمت بہت ہے

کسی کی یاد میں کھوئے رہیں گے
گنہگاروں کو یہ جنت بہت ہے

جنہیں مصروف رہنے کا مرض تھا
انہیں بھی آج کل فرصت بہت ہے

جہاں پر خوشبوئیں تھیں زندگی کی
اسی محفل میں اب غیبت بہت ہے

کبھی تو حسن کا صدقہ نکالو
تمہارے پاس یہ دولت بہت ہے

غزل خود کہہ کے پڑھنا چاہتے ہو
میاں اس کام میں محنت بہت ہے

ہوا تو تھم چکی لیکن دیوں کے
رویوں میں ابھی دہشت بہت ہے