EN हिंदी
وہ جس کے دل میں نہاں درد دو جہاں کا تھا | شیح شیری
wo jis ke dil mein nihan dard do-jahan ka tha

غزل

وہ جس کے دل میں نہاں درد دو جہاں کا تھا

شعلہ ہسپانوی

;

وہ جس کے دل میں نہاں درد دو جہاں کا تھا
خبر کسی کو نہیں کون تھا کہاں کا تھا

تلاش یار میں بھٹکا کیے خلاؤں میں
ہمیں زمیں کا پتہ تھا نہ آسماں کا تھا

ہنسا جو پھول تو شبنم کی آنکھ بھر آئی
بہار سمجھا جسے دور وہ خزاں کا تھا

ہزار بار مرا زندگی میں جیتے جی
وہ شخص خوف جسے مرگ ناگہاں کا تھا

وہیں پہ جا کے رکی آج بے خودی اپنی
جہاں پہ موڑ محبت کی داستاں کا تھا

بکھیرتا ہی رہا نور وہ شب غم میں
جو ماہتاب تصور کے آسماں کا تھا

وہ جس نے رات در دل پہ آ کے دستک دی
ضرور جھونکا کسی یاد رفتگاں کا تھا

تمام عمر کی کاوش سے طے نہ ہو پایا
وہ ایک فاصلہ جو اپنے درمیاں کا تھا

ہوا تھا قاتل سر عام جب مرا یارو
عجیب رنگ کچھ اس وقت آسماں کا تھا