EN हिंदी
وہ جلوہ طور پر جو دکھایا نہ جا سکا | شیح شیری
wo jalwa tur par jo dikhaya na ja saka

غزل

وہ جلوہ طور پر جو دکھایا نہ جا سکا

واصف دہلوی

;

وہ جلوہ طور پر جو دکھایا نہ جا سکا
آخر یہی ہوا کہ چھپایا نہ جا سکا

آتے ہی ان کے دشت و جبل مسکرا اٹھے
ایسے میں اپنا حال سنایا نہ جا سکا

گردوں بھی اضطراب عزیزاں سے ہل گیا
سوئے کچھ ایسے ہم کہ جگایا نہ جا سکا

دامن کے داغ اشک ندامت نے دھو دئیے
لیکن یہ دل کا داغ مٹایا نہ جا سکا

کتنی گھٹائیں آئیں برس کر گزر گئیں
شعلہ ہمارے دل کا بجھایا نہ جا سکا

باتیں ہزار یوں تو حریفوں کی چھپ گئیں
واصفؔ کا راز تھا جو چھپایا نہ جا سکا