وہ اضطراب شب انتظار ہوتا ہے
کہ ماہتاب کلیجہ کے پار ہوتا ہے
فسردہ آپ نہ ہوں دیکھ کر مرا داماں
یہ بد نصیب یوں ہی تار تار ہوتا ہے
نہیں کچھ اور محبت کی چوٹ ہے ہمدم
یہ درد دل میں کہیں بار بار ہوتا ہے
تری تلاش سے غافل نہیں ترا وحشی
زوال ہوش میں بھی ہوشیار ہوتا ہے
ہو ان کا وعدۂ فردا غلط سہی لیکن
میں کیا کروں کہ مجھے اعتبار ہوتا ہے

غزل
وہ اضطراب شب انتظار ہوتا ہے
جمیلہ خاتون تسنیم