وہ ایک خیمۂ شب جس کا نام دنیا تھا
کبھی دھواں تو کبھی چاندنی سا لگتا تھا
ہماری آگ بھی تاپی ہمیں بجھا بھی دیا
جہاں پڑاؤ کیا تھا عجیب صحرا تھا
ہوا میں میری انا بھیگتی رہی ورنہ
میں آشیانے میں برسات کاٹ سکتا تھا
جو آسمان بھی ٹوٹا گرا مری چھت پر
مرے مکاں سے کسی بد دعا کا رشتہ تھا
تم آ گئے ہو خدا کا ثبوت ہے یہ بھی
قسم خدا کی ابھی میں نے تم کو سوچا تھا
زمیں پہ ٹوٹ کے کیسے گرا غرور اس کا
ابھی ابھی تو اسے آسماں پہ دیکھا تھا
بھنور لپیٹ کے نیچے اتر گیا شاید
ابھی وہ شام سے پہلے ندی پہ بیٹھا تھا
میں شاخ زرد کے ماتم میں رہ گیا قیصرؔ
خزاں کا زہر شجر کی جڑوں میں پھیلا تھا
غزل
وہ ایک خیمۂ شب جس کا نام دنیا تھا
قیصر الجعفری