وہ دل کہ تھا کبھی سرسبز کھیتیوں کی طرح
سلگ رہا ہے جھلستے ہوئے تھلوں کی طرح
یہ شعر جس کی زمیں کو بھی مجھ سے شکوے ہیں
رہے گا یاد پرانی محبتوں کی طرح
کسی جگہ پہ بھی سیاح دل ٹھہر نہ سکا
جہاں کی سیر کو نکلے مسافروں کی طرح
اترتی ذہن میں بھی خوش گوار دھوپ کبھی
شروع گرما کے کھلتے ہوئے دنوں کی طرح
لہو رلاتی ہے بے وقت تنگ کرتی ہے
ہے اس کی یاد بھی بے رت کی بارشوں کی طرح
تمہاری چاہ کا انجام دیکھیے کیا ہو
لگا کے بیٹھے ہیں داؤ جواریوں کی طرح
خود اپنے سائے سے بھی کانپ کانپ اٹھتا ہوں
میں سہما پھرتا ہوں مفرور ملزموں کی طرح
اس آنکھ میں کوئی بے رنگ سی کشش تھی ریاضؔ
پرانے قلعوں میں کندہ عبارتوں کی طرح
غزل
وہ دل کہ تھا کبھی سرسبز کھیتیوں کی طرح
ریاض مجید