وہ ڈر کے آگے نکل جائے گا اگر یوں ہی
تو جیت پاؤں کو چومے گی عمر بھر یوں ہی
برہنہ پا مری سانسیں رگوں کے نیزوں پر
کریں گی کیسے بھلا رقص عمر بھر یوں ہی
سروں پہ اپنے تمازت کا بوجھ اٹھائے ہوئے
یہ کون محو سفر ہے ڈگر ڈگر یوں ہی
کہ جیسے پیاس سے لب جل رہے ہوں پانی کے
شکم کی آگ سے جلتی ہے دوپہر یوں ہی
غزل
وہ ڈر کے آگے نکل جائے گا اگر یوں ہی
شارب مورانوی