وہ اپنے مطلب کی کہہ رہے ہیں زبان پر گو ہے بات میری
ہے چت بھی ان کی ہے پٹ بھی ان کی ہے جیت ان کی ہے مات میری
کبھی وہ ملتا ہے دشمنوں سے کبھی وہ ملتا ہے مجھ سے آ کر
جو دن ہے میرا تو رات ان کی جو دن ہے ان کا تو رات میری
کبھی ہے تولہ کبھی ہے ماشہ کبھی ہیں ناخوش کبھی ہیں وہ خوش
قرار ان کو نہیں ہے دم بھر ہے تاک ان کی تو گھات میری
یہ بات کیا ہے یہ ماجرا کیا یہ راز کیا ہے یہ واقعہ کیا
کہ ہاں میں ہاں سب ملا رہے ہیں وہ کر رہے ہیں صفات میری
ارادہ ہے میں لکھوں فسانہ کسی کی کچھ دل شکستگی کا
قلم شکستہ پڑا کدھر ہے کہاں ہے کوئی دوات میری
ادھر بنی ہے دل حزیں پر ادھر تو سرگرم ناز ہیں وہ
کوئی یہ آ کر تماشا دیکھے ادا ہے ان کی ممات میری
یہ ہو رہا ہے تماشہ کیسا ادھر تو غم ہے ادھر ہے شادی
کبھی اٹھے گا جنازہ میرا کبھی سجی تھی برات میری
غزل
وہ اپنے مطلب کی کہہ رہے ہیں زبان پر گو ہے بات میری
بشیر الدین احمد دہلوی