EN हिंदी
وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی | شیح شیری
wo ahd ahd hi kya hai jise nibhao bhi

غزل

وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی

مصطفی زیدی

;

وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ الفت کو بھول جاؤ بھی

بھلا کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں
ہزار بار ہم آئیں ہمیں بلاؤ بھی

بگڑ چلا ہے بہت رسم خودکشی کا چلن
ڈرانے والو کسی روز کر دکھاؤ بھی

نہیں کہ عرض تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اس عہد تمنا میں آزماؤ بھی

فغاں کہ قصۂ دل سن کے لوگ کہتے ہیں
یہ کون سی نئی افتاد ہے ہٹاؤ بھی

تمہاری نیند میں ڈوبی ہوئی نظر کی قسم
ہمیں یہ ضد ہے کہ جاگو بھی اور جگاؤ بھی