وہ آج بھی قریب سے کچھ کہہ کے ہٹ گئے
دنیا سمجھ رہی تھی مرے دن پلٹ گئے
جو تشنہ لب نہ تھے وہ تھے محفل میں غرق جام
خالی تھے جتنے جام وہ پیاسوں میں بٹ گئے
صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے
جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے
جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے
جب لفظ مل گئے تو مرے ہاتھ کٹ گئے
جینے کا حوصلہ کبھی مرنے کی آرزو
دن یوں ہی دھوپ چھاؤں میں اپنے بھی کٹ گئے
غزل
وہ آج بھی قریب سے کچھ کہہ کے ہٹ گئے
ساغرؔ اعظمی