وقت کے انتظار میں وہ ہے
جستجوئے شکار میں وہ ہے
سینۂ رازدار ہی میں نہیں
دیدۂ آشکار میں وہ ہے
آئینہ صاف ہو تو دیکھ اسے
نقشۂ دل فگار میں وہ ہے
اس کے قبضے میں کائنات سہی
فقرا کی قطار میں وہ ہے
سر پہ دستار فضل ہے لیکن
جبۂ تار تار میں وہ ہے
بے کراں ذہن و دل کی ہے وسعت
جسم و جاں کے حصار میں وہ ہے
اس کی چاروں طرف کتابیں ہیں
حلقۂ غم گسار میں وہ ہے
پیش ظالم صدائے حق یعنی
نرغۂ صد ہزار میں وہ ہے
قلعۂ بے بصر میں تم محفوظ
خود کلامی کے غار میں وہ ہے
خاک تم پا سکوگے خاک اسے
آب و باد و شرار میں وہ ہے
لمحہ ہائے سکوں میں اس کی تلاش
ساعت اضطرار میں وہ ہے
پیروی اس کی ہے عبث راہیؔ
خود ہی راہ فرار میں وہ ہے
غزل
وقت کے انتظار میں وہ ہے
راہی فدائی