EN हिंदी
وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے | شیح شیری
waqt-e-aKHir yaad hai saqi ki mehmani mujhe

غزل

وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے

مضطر خیرآبادی

;

وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے
مرتے مرتے دے دیا انگور کا پانی مجھے

وہ مری صورت تو دیکھیں اپنی صورت کے لیے
کاش آئینہ بنا دے میری حیرانی مجھے

کٹ گیا ہے وصل سے پہلے زمانہ عمر کا
ہائے دھوکا دے گیا بہتا ہوا پانی مجھے

دامن صحرا سے لوں گا مر کے وحشت میں کفن
اک نیا جوڑا پنہائے گی یہ عریانی مجھے

میرے گل کو لا یا اپنے پھول لے جا عندلیب
ایسے کانٹوں سے نہیں پھانسیں نکلوانی مجھے

تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

تشنہ کامی اس کو کہتے ہیں کہ بحر عشق میں
میں اگر اتروں تو اوپر پھینک دے پانی مجھے

ایسی مشکل تم نے ڈالی ہے کہ جب مر جاؤں گا
مدتوں رویا کرے گی میری آسانی مجھے

تو نے اتنی دی کہ مے خواری کی حسرت بہہ گئی
میں نے اتنی پی کہ آخر ہو گئی پانی مجھے

رونے جاتا ہوں میں اپنی حسرتوں کے ڈھیر پر
بے کسی آ کر سکھا دے مرثیہ خوانی مجھے

حشر میں چلنا پڑے گا ایک ٹیڑھا راستہ
کوچۂ جاناں سکھا دے ٹھوکریں کھانی مجھے

مضطرؔ اپنے حق کے کانٹے چن کے میں رخصت ہوا
اور کیا دیتی بہار گلشن فانی مجھے