وقت آفاق کے جنگل کا جواں چیتا ہے
میری دنیا کے غزالوں کا لہو پیتا ہے
عشق نے مر کے سوئمبر میں اسے جیتا ہے
دل سری رام ہے دلبر کی رضا سیتا ہے
اب بھی گھنشیام ہے اس دشت کا بوٹا بوٹا
برگ نے آج بھی انساں کے لیے گیتا ہے
جگمگاتی رہی اشکوں سے شب تار حیات
دیپ مالا کی طرح دور الم بیتا ہے
کوئی لہکا جو سر دار تو یزداں نے کہا
ابن آدم نے مہ و سال کا رن جیتا ہے
تجھے سجدوں کے عوض مل نہ سکی روح بشر
ہم نے سر دے کے خدائی کا بھرم جیتا ہے
غزل
وقت آفاق کے جنگل کا جواں چیتا ہے
شیر افضل جعفری