EN हिंदी
وجود کو جگر معتبر بناتے ہیں | شیح شیری
wajud ko jigar-e-motabar banate hain

غزل

وجود کو جگر معتبر بناتے ہیں

سید امین اشرف

;

وجود کو جگر معتبر بناتے ہیں
علم پہ ہاتھ تو نیزوں پہ سر بناتے ہیں

چمن بھی ہو کوئی انبوہ خار و خس جیسے
یہ کارخانے تو برگ و ثمر بناتے ہیں

ہوا کا تبصرہ یہ ساکنان شہر پہ تھا
عجیب لوگ ہیں پانی پہ گھر بناتے ہیں

قرین عقل ہے کیا کوئی سوچتا ہی نہیں
خبر اڑانے سے پہلے خبر بناتے ہیں

نہیں یہ شرط کہ سب تیز گام ہو جائیں
جو دیدہ ور ہیں انہیں ہم سفر بناتے ہیں

کڑی ہو دھوپ تو دو پھول پیار کے ہنس کر
تپسیدہ راہوں میں شاخ شجر بناتے ہیں

کمال کبر سے کہتا تھا چارہ گر میرا
کہ ہم تفنگ و سناں پشت پر بناتے ہیں

کبھی سکوں کبھی جوش جنوں کبھی حیرت
مرا مزاج مرے کوزہ گر بناتے ہیں

کیا رہین ہنر ہم کو نارسائی نے
اداس بانہوں میں شمس و قمر بناتے ہیں

خیال خیر حسینوں میں ہے کہ وقت خرام
زمیں کو معدن لعل و گہر بناتے ہیں