EN हिंदी
وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے | شیح شیری
wahshat ke sath dasht meri jaan chahiye

غزل

وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے

عرفانؔ صدیقی

;

وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے
اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیئے

کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے

تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور
سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیئے

اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ
امید کے لیے کوئی امکان چاہیئے

ہوگا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ
اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیئے

آخر ہے اعتبار تماشا بھی کوئی چیز
انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیئے

جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں
اب کچھ نہیں تو سیر بیابان چاہیئے

سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے
یہ واقعہ تو داخل دیوان چاہیئے

ملک سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیئے

اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا
بلقیس شاعری کو سلیمان چاہیئے