وہم جیسی شکوک جیسی چیز
عمر ہے بھول چوک جیسی چیز
کیسے رکھیں ضمیر کو محفوظ
پیٹ میں لے کے بھوک جیسی چیز
گھول دی ہے غزل کے لہجے میں
میں نے کوئل کی کوک جیسی چیز
درد بن کر تری جدائی کا
دل میں اٹھتی ہے ہوک جیسی چیز
کاش ہوتی حسین لوگوں میں
کوئی حسن سلوک جیسی چیز
مصلحت کی بنا پہ لوگ سلیمؔ
چاٹ لیتے ہیں تھوک جیسی چیز

غزل
وہم جیسی شکوک جیسی چیز
سردار سلیم