وہی ان کی ستیزہ کاری ہے
وہی بیچارگی ہماری ہے
وہی ان کا تغافل پیہم
وہی اپنی گلہ گزاری ہے
وہی رخسار و چشم و لب ان کے
وہی بے چہرگی ہماری ہے
حسن ہو خیر ہو صداقت ہو
سب پہ ان کی اجارہ داری ہے
ہاتھ اٹھا توسن تخیل سے
یہ کسی اور کی سواری ہے
غزل
وہی ان کی ستیزہ کاری ہے
احمد مشتاق