EN हिंदी
وہی ستارہ جو بجھ گیا ہم سفر تھا میرا | شیح شیری
wahi sitara jo bujh gaya ham-safar tha mera

غزل

وہی ستارہ جو بجھ گیا ہم سفر تھا میرا

سراج منیر

;

وہی ستارہ جو بجھ گیا ہم سفر تھا میرا
اسی کی سمت ایک سبز ساحل پہ گھر تھا میرا

میں اس زمیں پر بریدہ بازو سسک رہا ہوں
جو اڑ رہا تھا ہوا میں وہ ایک پر تھا میرا

وہ ہاتھ میرے جنہوں نے تلوار سونت لی تھی
جو خاک و خوں میں لتھڑ گیا تھا وہ سر تھا میرا

زمیں یہاں سے وہاں تلک سبز ہو رہی تھی
مگر جو بے برگ و بر کھڑا تھا شجر تھا میرا

وہاں کے گھر تو فنا نے خاموش کر دیے تھے
عجیب سنسان بستیوں سے گزر تھا میرا