وہی بے لباس کیاریاں کہیں بیل بوٹوں کے بل نہیں
تجھے کیا بلاؤں میں باغ میں کسی پیڑ پر کوئی پھل نہیں
ہوئے خشک بحر تو کیا ہوا مری ناؤ زور ہوا پہ ہے
مرے بادباں ہیں بھرے ہوئے سو بلا سے ریت میں جل نہیں
ہے دباؤ عشرہ حواس پر ہیں تمام عضو کھنچے ربر
ہوں اتھل پتھل سے گھرا مگر مجھے اذن رد عمل نہیں
کسی بے غروب نگاہ سے کسی لا زوال شعاع میں
سبھی زاویوں سے الگ تھلگ مجھے حل کرو مرا حل نہیں
تری نیند سے بڑی آنکھ میں مجھے تابکار کرے کرن
مجھے ایسی دھات کا قلب دے جسے خوف رد و بدل نہیں
کہیں پانیوں میں بچھی نہ ہو کبھی ساحلوں سی کھلی نہ ہو
وہ زمیں دے میرے جہاز کو جہاں دوسرے کی پہل نہیں
سبھی سرد و گرم عبارتیں مرے خال و خد کا ہیں ظاہرا
جسے تخلیئے کی امیں کہوں وہ سنانے والی غزل نہیں
غزل
وہی بے لباس کیاریاں کہیں بیل بوٹوں کے بل نہیں
تفضیل احمد