EN हिंदी
وفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے | شیح شیری
wafa kya kar nahin sakte hain wo lekin nahin karte

غزل

وفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے

مضطر خیرآبادی

;

وفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
کہا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے

مسیحائی کا دعویٰ اور بیماروں سے یہ غفلت
دوا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے

رقیبوں پر عدو پر غیر پر چرخ ستم گر پر
جفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے

کبھی داد‌ محبت دے کے حق میری وفاؤں کا
ادا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے

زکات حسن دے کر اپنے کوچے کے گداؤں کا
بھلا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے

دل مضطرؔ کو قید دام گیسوئے پریشاں سے
رہا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے