واپس جو نہیں آئے گا میں وہ سفری ہوں
اے دوست گلے لگ کہ چراغ سحری ہوں
اے حسن یہ انداز و ادا تجھ میں کہاں تھے
میں تیرے لیے آئینۂ عشوہ گری ہوں
بڑھتی ہوئی تحریک سیاست مجھے سمجھو
اعلان بغاوت پئے بیداد گری ہوں
دنیا کے لیے جو ہے اجالوں کا پیمبر
ظلمت کدۂ شب میں وہ نجم سحری ہوں
رنگینی و خوش پیرہنی ہے مرے دم سے
گلشن میں کلی تم میں نسیم سحری ہوں
حیرت سے نہ کیوں دیکھے مجھے سارا زمانہ
پروردۂ آغوش کمال بشری ہوں
تم بھی ہو اداؤں کی کشاکش میں گرفتار
کیا فکر جو میں قیدیٔ آشفتہ سری ہوں

غزل
واپس جو نہیں آئے گا میں وہ سفری ہوں
جرار چھولسی