وعدہ و قول و قسم نے مجھے جینے نہ دیا
کیا ستم ہے کہ کرم نے مجھے جینے نہ دیا
دل تو آمادۂ غم تھا بہ ایں بربادئ جاں
مگر اندازۂ غم نے مجھے جینے نہ دیا
ناز بردار سوال دل پر خوں نہ ملا
کاسہ دیدۂ نم نے مجھے جینے نہ دیا
تو جفا پیشہ ہے کس منہ سے کہوں دنیا سے
اپنی چاہت کے بھرم نے مجھے جینے نہ دیا
ایک نادیدہ خدا نے مرے نالے نہ سنے
ایک پتھر کے صنم نے مجھے جینے نہ دیا
ایک سائے کا کرم ہے تپش جاں پہ ہنوز
ایک دیوار کے خم نے مجھے جینے نہ دیا
شعر لکھتا ہوں کہ تقدیر تمنا اے شاذؔ
ہنر لوح و قلم نے مجھے جینے نہ دیا

غزل
وعدہ و قول و قسم نے مجھے جینے نہ دیا
شاذ تمکنت