وعدہ گر روز کیے جائیے گا
روز سمجھوں گا کہ آج آئیے گا
جان کا غم نہیں غم یہ ہے کہ آپ
قتل کر کے مجھے پچھتائیے گا
میں بھی ہوں حضرت ناصح دانا
کچھ سمجھ کر مجھے سمجھائیے گا
لاغر اتنا ہوں کہ ہوں گھر میں مگر
میرے گھر میں نہ مجھے پائیے گا
تم نہیں قول و قسم کے سچے
جھوٹ کہتا ہوں قسم کھائیے گا
در پہ رہنے کی اجازت دے کر
کہتے ہیں پاؤں نہ پھیلائیے گا
کیا ہے جو کہتے ہو مطرب سے تم آج
کوئی ناظمؔ کی غزل گائیے گا

غزل
وعدہ گر روز کیے جائیے گا
محمد علی خاں ناظم رامپوری