EN हिंदी
وعدہ گر روز کیے جائیے گا | شیح شیری
wada gar rose kiye jaiyega

غزل

وعدہ گر روز کیے جائیے گا

محمد علی خاں ناظم رامپوری

;

وعدہ گر روز کیے جائیے گا
روز سمجھوں گا کہ آج آئیے گا

جان کا غم نہیں غم یہ ہے کہ آپ
قتل کر کے مجھے پچھتائیے گا

میں بھی ہوں حضرت ناصح دانا
کچھ سمجھ کر مجھے سمجھائیے گا

لاغر اتنا ہوں کہ ہوں گھر میں مگر
میرے گھر میں نہ مجھے پائیے گا

تم نہیں قول و قسم کے سچے
جھوٹ کہتا ہوں قسم کھائیے گا

در پہ رہنے کی اجازت دے کر
کہتے ہیں پاؤں نہ پھیلائیے گا

کیا ہے جو کہتے ہو مطرب سے تم آج
کوئی ناظمؔ کی غزل گائیے‌ گا