EN हिंदी
اٹھا کے ناز سے دامن بھلا کدھر کو چلے | شیح شیری
uTha ke naz se daman bhala kidhar ko chale

غزل

اٹھا کے ناز سے دامن بھلا کدھر کو چلے

بھارتیندو ہریش چندر

;

اٹھا کے ناز سے دامن بھلا کدھر کو چلے
ادھر تو دیکھیے بہر خدا کدھر کو چلے

مری نگاہوں میں دونوں جہاں ہوئے تاریک
یہ آپ کھول کے زلف دوتا کدھر کو چلے

ابھی تو آئے ہو جلدی کہاں ہے جانے کی
اٹھو نہ پہلو سے ٹھہرو ذرا کدھر کو چلے

خفا ہو کس پہ بھنویں کیوں چڑھی ہیں خیر تو ہے
یہ آپ تیغ پہ دھر کر جلا کدھر کو چلے

مسافران عدم کچھ کہو عزیزوں سے
ابھی تو بیٹھے تھے ہے ہے بھلا کدھر کو چلے

چڑھی ہیں تیوریاں کچھ ہے مژہ بھی جنبش میں
خدا ہی جانے یہ تیغ ادا کدھر کو چلے

گیا جو میں کہیں بھولے سے ان کے کوچے میں
تو ہنس کے کہنے لگے ہیں رساؔ کدھر کو چلے