اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں
میں اک سوار ہوں کوہ ندا کو جاتا ہوں
رمیدگی کا بیاباں ہے اور بے خور و خواب
غبار کرتا سکوت و صدا کو جاتا ہوں
قریب ہی کسی خیمے سے آگ پوچھتی ہے
کہ اس شکوہ سے کس قرطبہ کو جاتا ہوں
حذر کہ دجلۂ دشوار پر قدم رکھتا
شکارگاہ فرات و فنا کو جاتا ہوں
کہاں گئے وہ خدایان درہم و دینار
کہ اک دفینۂ دشت بلا کو جاتا ہوں
سفارت حد حیرانگی پہ ہوں مامور
نگار خانۂ حسن و ادا کو جاتا ہوں
وہ دن بھی آئے کہ انکار کر سکوں ثروتؔ
ابھی تو معبد حمد و ثنا کو جاتا ہوں

غزل
اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں
ثروت حسین