EN हिंदी
اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں | شیح شیری
usi kinara-e-hairat-sara ko jata hun

غزل

اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں

ثروت حسین

;

اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں
میں اک سوار ہوں کوہ ندا کو جاتا ہوں

رمیدگی کا بیاباں ہے اور بے خور و خواب
غبار کرتا سکوت و صدا کو جاتا ہوں

قریب ہی کسی خیمے سے آگ پوچھتی ہے
کہ اس شکوہ سے کس قرطبہ کو جاتا ہوں

حذر کہ دجلۂ دشوار پر قدم رکھتا
شکارگاہ فرات و فنا کو جاتا ہوں

کہاں گئے وہ خدایان درہم و دینار
کہ اک دفینۂ دشت بلا کو جاتا ہوں

سفارت حد حیرانگی پہ ہوں مامور
نگار خانۂ حسن و ادا کو جاتا ہوں

وہ دن بھی آئے کہ انکار کر سکوں ثروتؔ
ابھی تو معبد حمد و ثنا کو جاتا ہوں