EN हिंदी
اسے خلاؤں کی وسعتوں کا تجربہ ہی نہیں | شیح شیری
use KHalaon ki wusaton ka tajraba hi nahin

غزل

اسے خلاؤں کی وسعتوں کا تجربہ ہی نہیں

اوم کرشن راحت

;

اسے خلاؤں کی وسعتوں کا تجربہ ہی نہیں
وہ میرے ساتھ کبھی عرش تک گیا ہی نہیں

میں اس کو اور ہی عالم میں لے گیا ہوتا
زمانہ انگلی پکڑ کر مری چلا ہی نہیں

ہر ایک چہرے پہ کتنی عبارتیں ہیں رقم
مری جبیں پہ تو کچھ وقت نے لکھا ہی نہیں

بلا کشان محبت میں ہے شمار مرا
یہ انکشاف تو مجھ پر کبھی ہوا ہی نہیں

بنام جام و سبو اس کو روکنا چاہا
تھا وقت مجھ سے بھی چالاک وہ رکا ہی نہیں

قصور اس کا نہیں ہے قصور میرا ہے
میں کم نصیبی کی تہہ تک کبھی گیا ہی نہیں

اک آس ذہن کے کونے میں ہے ابھی محفوظ
یہ اور کھلونا ہے راحتؔ جو ٹوٹتا ہی نہیں