اس پہ کیا گزرے گی وقت مرگ اندازہ لگا
منتشر ہستی کا اپنی جس کو شیرازہ لگا
اولیا اللہ کی چوکھٹ کے بھی آداب ہیں
سر اٹھا کر جو بھی آیا اس کو دروازہ لگا
نور کی چادر تنی ہے یوں فضائے دہر پر
جیسے تارے توڑنے کو دست خمیازہ لگا
جانے کس انداز سے اس شوخ نے ڈالی نظر
جو پرانا زخم تھا وہ بھی ہمیں تازہ لگا
میکدے کا ایک ہی دم میں بدل جائے نظام
سوئے مے خانہ بھی آسیؔ ایسا آوازہ لگا
غزل
اس پہ کیا گزرے گی وقت مرگ اندازہ لگا
عاصی فائقی