اس نے اپنا لیا تو ٹھہرا میں
وہ سمندر ہے اور دریا میں
اس کی وسعت میں وسعتیں میری
اس کی گہرائیوں میں گہرا میں
سنگ برسے کہ پھول مت پوچھو
ٹوٹنا تھا مجھے سو ٹوٹا میں
ہم نشیں کیا جو ہم خیال نہیں
انجمن انجمن ہوں تنہا میں
ربط گفت و شنید ہو تو کھلے
لوگ گونگے ہیں یا ہوں بہرا میں
اب نہ جذبہ نہ آرزو نہ امید
بن دوانوں کا ایک صحرا میں
یاد رکھنا ہی ناگزیر ہے کیوں
کبھی تجھ کو بھلا بھی سکتا میں

غزل
اس نے اپنا لیا تو ٹھہرا میں
اظہار وارثی