اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے
جب اس کا گریبان کھلا بال بندھے تھے
اے زود فراموش کہاں تو ہے کہ تجھ سے
میرے تو شب و روز مہ و سال بندھے تھے
وہ رشک غزالاں تھا مگر دام میں اس کے
ہم جیسے کئی صید زبوں حال بندھے تھے
دیکھے کوئی ناصح کی جو حالت ہے کہ ہم تو
اس بت کی محبت میں بہرحال بندھے تھے
صیاد کو پھر بھی مری پرواز کا ڈر تھا
میں گرچہ قفس میں تھا پر و بال بندھے تھے
یوں دل تہہ و بالا کبھی ہوتے نہیں دیکھے
اک شخص کے پاؤں سے تو بھونچال بندھے تھے
وقت آیا تو میں مقتل جاں میں تھا اکیلا
یاروں کی گرہ میں فقط اقوال بندھے تھے
غزل
اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے
احمد فراز