EN हिंदी
اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا | شیح شیری
uski nazar ka mujh pe kuchh aisa asar hua

غزل

اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا

بشیر فاروقی

;

اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا
دل تھا صدف مثال برنگ گہر ہوا

وہ شوخیاں تھیں اور نہ وہ رنگ روپ تھا
کل میں بہت اداس اسے دیکھ کر ہوا

ایثار اور وفا کی مرے داستاں یہ ہے
جب بھی وطن پہ وار ہوئے میں سپر ہوا

وہ حادثہ تو کوئی بڑا حادثہ نہ تھا
یہ اور بات دل پہ زیادہ اثر ہوا

ایسا بھی ایک در ہے اسی کائنات میں
اس در کا جو فقیر ہوا تاجور ہوا

اب جا کے مجھ کو سرد شبستاں ہوا نصیب
برسوں تمام جسم پسینے میں تر ہوا

دہشت زدہ فضاؤں سے وہ بے نیاز تھا
جب اس کا گھر جلا ہے تو اس پر اثر ہوا

یاد آ گئی تھی مجھ کو شہید وفا کی پیاس
دریا کو دیکھ کر جو مرا دل شرر ہوا

پتھر بھی پھینکتے کوئی آتا نہیں ادھر
بوڑھے شجر کی طرح جو میں بے ثمر ہوا

جس دن مری غزل نے چھوئے اس کے لب بشیرؔ
اس دن مری غزل کا سفر معتبر ہوا