اس کی دیوار پہ منقوش ہے وہ حرف وفا
جس کی تعبیر کو خوابوں کا سہارا نہ ملا
میری تنہائی سے اکتا کے ترا نام بھی کل
اپنے مستقبل تاباں کی طرف لوٹ گیا
جب خیالات مرا ساتھ نہیں دیتے ہیں
دل میں در آتی ہے چپکے سے وہ مانوس صدا
ایسے خوش رنگ سرابوں کا سہارا کب تک
مسکراتا ہوں تو دیتی ہے تمنا یہ صدا
میں نے چاہا تھا نئی صبح کا سورج بن جاؤں
دور تک دامن شب اور بھی کچھ پھیل گیا
پھر خدائی میں ہے کیوں گھور اندھیروں کو ثبات
ہم چلو مان گئے ایک تجلی ہے خدا
شعر کہتا ہوں تو اکملؔ مرا دل کہتا ہے
فکر آوارہ پہ الفاظ کی چادر نہ چڑھا
غزل
اس کی دیوار پہ منقوش ہے وہ حرف وفا
فصیح اکمل