اس کے لیے آنکھیں در بے خواب میں رکھ دوں
پھر شب کو جلا کر انہیں محراب میں رکھ دوں
صورت ہے یہی اب تو گزرنا ہے یوں ہی وقت
جس بات کو دل چاہے اسے خواب میں رکھ دوں
پھرتے ہیں سدا جس میں سمندر بھی زمیں بھی
یہ پورا فلک بھی اسی گرداب میں رکھ دوں
یہ سارے ستارے کسی دریا میں بہا دوں
بس چاند پکڑ کر کسی تالاب میں رکھ دوں
کپڑے جو مجھے تنگ ہوں پہنا دوں خلا کو
اور خواب پرانے کہیں مہتاب میں رکھ دوں
اتنا بھی نہ آساں ہو یہاں پیاس بجھانا
بہتا ہوا دھوکہ سا کہیں آب میں رکھ دوں
سب کچھ ہی گنوا دینے سے بہتر ہے کہ شاہیںؔ
خاشاک دل و جاں رہ سیلاب میں رکھ دوں
غزل
اس کے لیے آنکھیں در بے خواب میں رکھ دوں
جاوید شاہین