اس کے اپنے درمیاں استادہ اک دیوار میں
ایک دشت شادمانی اس میں اک آزار میں
میں نہیں تھا تو ہی تھا عالم میں لیکن تیرے بعد
اے خدائے عز و جل تیرا ہوا اظہار میں
شمع سے ہے نور جیسا تیرا میرا انسلاک
ورنہ تو بہتی ہوا ہے پھول کی مہکار میں
بخت کی سازش کہوں یا پھر مشیت غیب کی
تیر زن کوئی بھی ہو لیکن ہدف ہر بار میں
کل تلک اس کا رہا تھا دل کو میرے اشتیاق
آج وہ نزدیک ہے پر اس سے ہوں بیزار میں
اک نہ اک دن تو مسخر اس کو ہونا ہے ندیمؔ
وہ خلاؤں کا مکیں ہے نور کی رفتار میں
غزل
اس کے اپنے درمیاں استادہ اک دیوار میں
جاوید ندیم