EN हिंदी
اس جنگل سے جب گزرو گے تو ایک شوالہ آئے گا | شیح شیری
us jangal se jab guzroge to ek shiwala aaega

غزل

اس جنگل سے جب گزرو گے تو ایک شوالہ آئے گا

صابر وسیم

;

اس جنگل سے جب گزرو گے تو ایک شوالہ آئے گا
وہاں رک جانا وہاں رہ جانا وہاں سکھ کا اجالا آئے گا

یہ سوچ کے اٹھنا ہر دن تم اس دل کا پھول کھلے گا ضرور
اس آس پہ سونا اب کی شب کوئی خواب نرالا آئے گا

جب اس کے ہاتھ نیا ماضی اس صفحۂ ارض پہ لکھیں گے
جب سحر و شام رقم ہوں گے تب میرا حوالہ آئے گا

اس بے اندیشہ صحرا میں اس اونگھنے والی امت پر
کب جاگنے والا اترے گا کب سوچنے والا آئے گا

پھر روحیں زخمی زخمی ہیں پھر کوڑھ سے دکھنے آئے بدن
یوں لگتا ہے کہ شفاعت کو پھر کوئی گوالا آئے گا

اے راہ سخن کے راہروو دل شاد رہو اس راہ میں بھی
خوشبو کی سواری ٹھہرے گی رنگوں کا پیالہ آئے گا