اس گرمئ بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
سچ جانیے دکان کے اندر نہیں کچھ بھی
ہم جہد مسلسل سے جہاں ٹوٹ کے گر جائیں
وہ لمحہ حقیقت ہے مقدر نہیں کچھ بھی
مجبور تجسس نے کیا ہے ہمیں ورنہ
اس قید کی دیوار کے باہر نہیں کچھ بھی
یہ میری تمنا ہے کہ جنبش میں ہیں پردے
اک خواہش پیہم ہے پس در نہیں کچھ بھی
افکار کی اقلیم وراثت ہے ہماری
اور اس کے سوا ہم کو میسر نہیں کچھ بھی
درویش بھی ہوتے ہوئے ہم ایسے غنی ہیں
دارائی دنیائے سکندر نہیں کچھ بھی
جس تخت غنا پر متمکن ہوں میں پرتوؔ
اس دولت بے حد کے برابر نہیں کچھ بھی
غزل
اس گرمئ بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
پرتو روہیلہ