انہیں اب کوئی آئنا دیجئے
ذرا اصلی صورت دکھا دیجئے
بٹھائے ہیں پہرے بہت آپ نے
زباں پہ بھی تالا لگا دیجئے
وچاروں سے ہی وہ تو بیمار ہیں
کوئی سوچ کی اب دوا دیجئے
سزا ہی سہی کچھ تو دے جائیے
وفاؤں کا اب تو صلہ دیجئے
جو انساں سے انساں کو واقف کرے
ہمیں کوئی ایسا خدا دیجئے
محبت ہے یہ کب یہ بندھن لگی
بھلے کتنی سرحد بنا دیجئے
غزل
انہیں اب کوئی آئنا دیجئے
سیما شرما سرحد