ان کو رسوا مجھے خراب نہ کر
اے دل اتنا بھی اضطراب نہ کر
آمد یار کی امید نہ چھوڑ
دیکھ اے آنکھ میل خواب نہ کر
مل ہی رہتی ہے مے پرست کو مے
فکر نایابئ شراب نہ کر
ناصحا ہم کریں گے شرح جنوں
دل دیوانہ سے خطاب نہ کر
شوق یاروں کا بے شمار نہیں
ستم اے دوست بے حساب نہ کر
دل کو مست خیال یار بنا
لب کو آلودۂ شراب نہ کر
رکھ بہرحال شغل مے حسرتؔ
اس میں پروائے شیخ و شاب نہ کر
غزل
ان کو رسوا مجھے خراب نہ کر
حسرتؔ موہانی