عمر کاٹی بتوں کی آڑوں میں
بن کے پتھر رہا پہاڑوں میں
وہ لڑائی میں بول اٹھے مجھ سے
بات اچھی بنی بگاڑوں میں
درد سر کے علاج کو وحشت
کھینچ کر لے چلی پہاڑوں میں
مستیاں اور بہار کا موسم
مے کی لذت گلابی جاڑوں میں
دختر رز کی شرم تو دیکھو
چھپ گئی جا کے خم کی آڑوں میں
تو نے پی ہی نہیں ہے اے زاہد
مے کی گرمی نہ پوچھ جاڑوں میں
تیرے گیسو بھی ہو گئے شامل
میری تقدیر کے بگاڑوں میں
مرگ دشمن پہ موت روتی ہے
یہ اثر ہے تری پچھاڑوں میں
اٹھتے جوبن پہ کھل پڑے گیسو
آ کے جوگی بسے پہاڑوں میں
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
عشق میں جان پر بنی مضطرؔ
زندگی کٹ گئی بگاڑوں میں

غزل
عمر کاٹی بتوں کی آڑوں میں
مضطر خیرآبادی